Tuesday 18 July 2017

Manajaat: by Ahmad Nadeem Qasmi

Ahmad Nadeem Qasmi, (Pride of Performance) , (Sitara-e-Imtiaz(
)Urdu: (احمد ندیم قاسمی) born Ahmad Shah Awan(Urdu: احمد شاہ اعوان on November 20, 1916 –died July 10, 2006) was a legendary Urdu and English language Pakistani poet, journalist, literary critic, dramatist and short story author. He wrote 50 books including poetry, fiction, criticism, journalism and art. He was a major figure in contemporary Urdu literature. His poetry stood out among his contemporaries' work for its unflinching humanism, and his Urdu afsana (novel) work is considered by some second only to Prem Chand in its masterful depiction of rural culture. He was also editor and publisher of literary magazine Funoon for almost half a century, grooming generations of new writers. He wrote many English poems and short stories. His poem The Feed is included in the syllabus of intermediate classes in Pakistan. He received awards the Pride of Performance in 1968 and Sitara-e-Imtiaz in 1980 for his literary work.


Here you go(Manajaatمناجات) Urdu by Ahmad Nadeem Qasmi. I hope you will like it.
مناجات
خدا کرے  کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھِلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

٭٭٭

علامہ سیماب اکبر آبادی کا تعارف Alama Semab Akbar abadi A Famous Urdu Poetess

علامہ سیماب اکبر آبادی
 علامہ سیماب اکبر آبادی آگرہ (اکبر آباد) 5 جون 18800ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ وہ شاعری میں داغ دہلوی کے شاگرد تھے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خود ان کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔
 علامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادر الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ وحی منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔ 31جنوری1951ء کو علامہ سیماب اکبر آبادی انتقال کرگئے۔وہ کراچی میں قائداعظم کے مزار کے نزدیک آسودۂ خاک ہیں۔
 سیماب اکبرآبادی : ایوان غزل کا منفرد شاعر
 سیمابؔ اکبرآبادی کا شمار ان خوش نصیب شعرأ میں ہوتا ہے، جنھیں گزرتے وقت کے ساتھ فراموش نہیں کیا گیا۔ اکبرآباد موجودہ آگرہ میں جون ۱۸۸۰ میں پیدا ہونے اس شاعر کو لوگ آج بھی اسی شان سے ان کے زبان زد خاص و عام اشعار کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ سیماب اکبرآبادی کا اصل نام عاشق حسین اور ان کے والد کا نام مولوی محمد حسین تھا ۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام ، نوحہ اور نعت وغیرہ میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کامیاب اور صحت مند تجربے کرکے شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ؂

میخانۂ سخن کا گدائے قدیم ہوں
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
(سیمابؔ)
 سیمابؔ غزل کے سلسلے میں ہمیشہ تذبذب کے شکار رہے ۔ اس کی وجہ میرے خیال میں اس وقت ایک جانب غزل کی مقبولیت اور دوسری طرف حالیؔ وغیرہ کی مخالفت تھی جس کی بنا پر سیمابؔ کہتے نظر آتے ہیں کہ ۔
’’ ایک غزل کی جامعیت بعض اوقات ہزاروں نظموں سے بڑھ جاتی ہے۔‘‘
(کلیم عجم۔ خطبات ،۲)
دوسری طرف سیماب ؔ کا یہ خیال بھی ملتا ہے کہ___
 میں غزل میں پاکیزہ تغزل کا مخالف نہیں ، لیکن شاعری کو محض تغزل تک محدود رکھنا بھی نہیں چاہتا ، میں جانتا ہوں کہ اردو شاعری میں غزل اس وقت ایک مدقوق مریضہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اندیشہ ہے کہ اگر اسے صحیح صورت میں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو وہہمیشہ کے لئے فنا ہو جائے گی۔‘‘
اس کے بعد سیمابؔ اپنے خیال کو بھی رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
 ’’ میں نظم کو غزل پر ترجیح دیتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ شعراء غزل سے زیادہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس لئے کہ غز ل جس چیز کا نام ہے ، وہ اپنی قدامت و کہنگی کی وجہ سے اب زیادہ کار آمد نہیں رہی۔ شعرا ء منتفر نہاس صنف کو بہ تمام و کمال پامال اور ختم کرچکے ہیں___منتہیٰ شعراء کے لئے بھی غزل میں اجتہاد ایجاد کی گنجائش بہت کم باقی ہے ۔مگر نظم کا میدان ہنوز وسیع ہے۔اور یہ صنف سخن اردو شاعری کو کارآمد اور مفید بنا سکتی ہے اس لئے زیادہ تر توجہ اس کی طرف ہونا چاہئے۔‘‘
 سیمابؔ نظم کو غزل پر کیوں ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ سیمابؔ کے عہد کی غزلوں کے مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے ۔ اور ان اسباب کا بھی پتا چلتا ہے ، جن کے باعث سیمابؔ نے غزل کو قدامت پسند صنف سخن ٹھہرایا اور اس کی جانب توجہ نہ دینے کی تلقین کی۔
 سیمابؔ جس عہد میں سانس لے رہے تھے اس عہد اور اس زمانہ میں انسان مختلف قسم کے مسائل سے دوچار تھا ۔غلامی کا طوق گلے میں تھا ۔ عزت وقار ، خاندانی روایتیں اور قدریں دم توڑتی نظر آرہی تھیں ۔ روزی روٹی کا مسئلہ عفریت کی طرح سامنے کھڑا تھا ۔ انقلابی طاقتیں بھی سر ابھار رہی تھیں ۔ان حالات میں ہمارے شعراء جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کا نباض ہوتا ہے ۔ وہ حسن و عشق ، جام و صبواور شمع و پروانہ کی باتیں اپنی غزلوں میں کررہے تھے ۔ اس امر کو ایک حساس شاعر کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ اس لئے سیمابؔ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ___
 ’’ ایک شاعر اگر اسے اپنے فرض کا احساس ہے اور وہ زمانہ کا نبض شناس ہے توہزاروں نبرد آزما جوانوں سے بہتر ہے۔‘‘
 سیمابؔ ہمیشہ شاعری میں صحت مند رویے کے پیرو کا ر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ وہ دوسرے شعراء خواہ وہ ان کے ہم عصر ہوں یا ان کے شاگرد ، شاعری میں حسن و عشق ، گل و بلبل، شمع و پروانہ اور جام وصبو وغیرہ جیسے پرانے اور روایتی موضوعات کو جگہ دے کر صرف تفریح کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ وقت کے اہم تقاضوں کو سمجھیں اور بلند خیالی اور بلند نگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدے اور مطالعے کا ثبوت دیتے ہوئے اول درجہ کی شاعری کا نمونہ پیش کریں اور شاعری کے وقار اور عظمت کو بلند کریں ۔ گیا (بہار) میں منعقدہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۲۲ء کے ایک مشاعرے میں اپنے پہلے خطبہ میں سیمابؔ نے ان ہی باتوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔
 ’’ اردو شاعری کی اجزائے ترکیبی جب تک صرف گل و بلبل ، شمع و پروانہ ، سرو قمری اور شانہ و زلف سے وابستہ رہے ، شاعری کو صرف تفریح کی خاطر ایک ذریعۂ مسرور سمجھی گئی ۔ لیکن قدرت نے لکھنؤ، دہلی اور پانی پت کے بعض فاضل عمائدین کے دماغ کو انوار شاعری سے تجلی کرکے دنیائے سخن کی فضائے بسیط پر رشد و ہدایت کی بجلیاں چمکائیں۔‘‘
 لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ ایسی شاعری جس کے سیمابؔ مخالف تھے ، صرف غزلوں میں ہی پائی جاتی تھیں ۔ بلکہ اس زمانے کی نظموں میں بھی اسی طرح کے اظہار جگہ پاتے تھے۔پھر بھی غزل کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔جس وجہ کر سیمابؔ اس سلسلے میں برابر تذبذب میں مبتلا رہے اور خود بھی خوب سے خوب تر غزلیں کہتے رہے۔لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ ؂
شگفتِ خاطر اے سیمابؔ تھی جو شاعری پہلے
طبیعت پر وہ اب اک بار سا معلوم ہوتی ہے
 سیماب ؔکی غزلیں ’’کلیم عجم ‘‘ سدرۃ المنتہیٰ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کے فکرو خیال کی بلندی ، احساسات و جذبات کی رنگا رنگی ، حیات و کائنات کی تنقید ، تفسیر اور تعبیر تمام تر فنی بالیدگیوں کے ساتھ نظر آنے لگی تھیں اور اپنے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کی وجہ کر اپنے ہم عصر شعراء میں بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرچکی تھی ۔ جس سے ان کے ہم عصر شعرا ء کو حسد کا موقع ملا ۔ خاص طور پر سیماب ؔ کی غزل کا ایک شعر ؂
وہ سجدہ کیا رہے احساس جس میں سر اٹھانے کا
عبادت اور بقید ہوش توہین عبادت ہے
 اس سے مخالفت بڑھی اور ان کے ہم عصروں کو موقع ملا کفر کا فتویٰ صادر کرنے کا۔لیکن سیمابؔ نے کبھی ان سب باتوں کی پرواہ کی اور نہ ان فضولیات میں پڑے ۔بلکہ اپنے فکر و فن ،احساس و جذبات ، مطالعہ و مشاہدہ سے اردو شاعری کا دامن بھرتے رہے۔
 ’’کلیم عجم‘‘ اور سدرۃ المنتہیٰ ‘‘ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک سیماب ؔاکبر آبادی کی غزلیہ شاعری کا سفر خاصا طویل رہا ہے اور اس طویل سفر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج جو غزلوں کا مزاج اور معیار بدلا ہوا دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا کریڈٹ کسی حد تک سیمابؔ کو جاتا ہے کیونکہ سیمابؔ نے ہمیشہ ایسی غزلوں کی مخالفت کی جو صرف تفریح طبع کے لئے کی جاتی رہیں اور عصری مسائل اور عصری تقاضوں سے لا تعلق رہیں اس کے برعکس سیماب ؔنے اپنے ارد گرد کے حالات کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ اور انہیں اپنی غزلوں میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ۔اسی لئے برسوں قبل کہے ہوئے سیمابؔ کے اشعار آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کررہے ہیں ۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؂
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

دبا رکھا تھا جس کو ضبط نے غربت کے سینے میں
وہ شورش اب جہاں میں جابجا معلوم ہوتی ہے
٭
ہیں اب آزاد مثلِ نکہت و رنگ چمن ہم بھی
وطن کو چھوڑ کر سمجھے ہیں مفہوم وطن ہم بھی
٭
جسے نہ تجربہ ہو رنج نا رسائی کا
وہ کارواں ہیں میرے پیر کارواں نہ بنے
٭
کل کسی قافلے میں جن کا نہ تھا کوئی مقام
آج وہ قافلہ سالار نظر آتے ہیں
تغیرات ہیں مجھ میں بھی زندگی کی طرح
کبھی کسی کی طرح ہوں ، کبھی کسی کی طرح
٭
بھلادوں کس طرح سیمابؔ صد سالہ تعلق کو
مرا سرمایۂ ماضی ابھی ہندوستان میں ہے
٭
کہاں ہے سیمابؔ کا وہ دل اب جو اس کے پہلو میں جستجو کی
گھٹا ہوا سا دھواں ملے گا ، اڑی ہوئی خاک میں ملے گی
٭
نہیں جس میں تحمل مشکلات راہ منزل کا
وہ پچھتائے گا اے سیمابؔ میرا ہم سفر ہوکر
٭
مجھے کیوں انقلاب حال پر سیمابؔ حیرت ہو
کہ ایسے انقلاب آتے رہتے ہیں ہر زمانے میں
٭
شعر یوں کہتا ہے بے فکر و تکلف سیمابؔ
جیسے اس شخص کو الہام ہوا کرتا ہے
٭
 بہت سارے ایسے اشعار سیمابؔ کی غزلوں میں ملتے ہیں جو انقلابیت، وطن دوستی ، ترک وطن کا کرب، وطن کی یاد، دوستوں کی رفاقت ، حیات و کائنات کے اسرار ورموز ، خدا کیقدرت اور اس کی کرشمہ سازیاں وغیرہ جیسے اہم موضوعات میں رومانیت و اشاریت کا حسین امتزاج موجود ہیں۔
 سیماب ؔکی ابتدائی غزلوں میں رومانیت اور مناظرِ فطرت کی ایسی کیفیات پوری شدت کے ساتھ ملتی ہیں ،جس میں جذباتیت بھی ہے اور احساس کی رنگینیاں بھی ۔لیکن عریانیت یا عامیانہ اور سطحی باتوں کا کہیں پر بھی دخل نہیں ہے۔ اس سے سیمابؔ نے ہمیشہ پرہیز کیا۔ 


وقت تنہائی میں مشکل سے کٹے
تیرے وعدوں کا سہارا گر نہ ہو
٭
مطمح عشق کہاں حسن کم آویز کہاں
آپ کرتے ہیں وفا ، شرم مجھے آتی ہے
٭
حُسن دنیا میں ہے جب تک باقی

ترک دنیا مری نیّت میں نہیں

سیماب اکبرآبادی (عاشق حسین) کا مختصر تعارف ، حالات زندگی۔ Alama semab akbar abadi A Famous Urdu Poetess poetry

سیماب اکبرآبادی  (عاشق حسین) 

سیماب اکبر آبادی (1882 - 1951) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔
سیماب آگرہ ، اتر پردیش ، میں پیدا ہوئے۔ انکے والد ، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔ سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌الدین سرحدی اور رشید احمد گنگولی سے حاصل کی۔ 1892 سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898 میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923 میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے"پیمانہ" اور بعد میں 1929 میں "تاج" اور 1930 میں "شاعر" شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932 میں بند ہو گیا تھا۔
سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام "نیستاں" 1923 میں چھپا تھا۔ انکی لکھی 70 کتابوں میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں " وہی منظوم " بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں انکو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔ سیماب کے تقریبآً 370 شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری ، ساغر نظامی ، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی ، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں

خامشی بھی ناز سے خالی نہیں  
تم نہ بولو ہم پکارے جائیں گے

تم مرے پاس رہو پاسِ ملاقات رہے    
نہ کہو بات کسی سے تو مری بات رہے

وہ خود لئے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں           
بےہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا

بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر     
پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا

تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح   
پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح

کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے       
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

مہینے اس خوابیدہ عالم کو بنایا کام کا           
گرمیءِ محفل نتیجہ ہے مرے پیغام کا

صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا     
کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے

سیماب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر  
کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا

نہ تھا وہ بھید کہ دنیا مجھے سمجھ سکتی        
میں خود بھی اپنے سمجھنے میں کامیاب نہ تھا

میخانۂِ سخن کا گدائے قدیم ہوں  
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے

میں اس دنیا میں اے سیماب اک رازِ حقیقت تھا   
 سمجھنے کی طرح اہلِ جہاں مجھ کو کہاں سمجھے


دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاونگا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

سیماب اکبرآبادی

عندلیب شادانی (وجاحت حسین) کا مختصر تعارف ، حالات زندگی Andaleeb shadani A Famous Urdu Poetess

 عندلیب شادانی(وجاحت حسین)

عندلیب شادانی کا اصل نام سید وجاہت حسین تھا ۔ان کی پیدائش اتر پردیش کے سرائے سنبھل میں 1895ء میں ہوئی تھی ۔
عندلیب شادانی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ رام پور میں داخلہ لیا تھا ۔ یہیں سے منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کئے ۔ پھر پرائیویٹ طور پر 1921ء میں بی ۔ اے پاس کیا۔ بعد میں وہ لاہور چلے گئے اور وہاں ایک کالج سے وابستہ ہو گئے ۔ 1928ء میں فارسی کے لکچرر کے طور پر ان کا تقرر ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوا ۔1931ء میں وظیفے کے تحت لندن جا کر پی ۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ بعد میں وہ پھر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی شعبے کے صدر بنے اور وہیں سے 1965ء میں سبکدوش ہوئے ۔

عندلیب شادانی کا انتقال 29 جولائی 1969ء کو ڈھاکہ ( اس وقت مشرقی پاکستان ) میں ہوا تھا۔

افسر صدیقی امروہوی کا مختصر تعارف، حالات زندگی Afsar Siddiqui Amrohi A Famous Urdu Poetess


افسر صدیقی امروہوی

(1896–1984)

افسر صدیقی امروہوی (پیدائش: 
9 دسمبر، 1896ء - وفات: 9 فروری، 1984ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، محقق، مترجم اور صحافی تھے۔
افسر صدیقی امروہوی 3 رجب، 1314ھ بمطابق 9 دسمبر، 1896ء بروز بدھ کو امروہہ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے. ان کے جدِ اعلیٰ نوازش علی عرف نوازی صدیقی 1713ء میں دہلی سے امروہہ آئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ افسر کے والد کا نام شمس الدین تھا۔ میر فضل حسین سعید امروہوی سے تعلیم کی ابتدا کی۔ مختلف اساتذہ سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اردو مڈل، اردو ٹریننگ اور ہندی مڈل کے امتحانات پاس کئے۔ فارسی، سندھی، انگریزی اور پنجابی زبانیں حسبِ ضرورت جانتے تھے۔ وہ شاعری میں مضطر خیرآبادی اور شوق قدوائی لکھنوی کے شاگرد تھے۔ 1927ء میں کراچی، پاکستان منتقل ہو گئے اور تا عمر اسی شہر میں بسر کی۔ 1962ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور قلمی کتابوں کی تفصیلی فہرست کی تیاری پر معمور ہوئے۔ انہوں نے 1935ء کے لگ بھگ کراچی سے ماہنامہ تنویر جاری کیا جس نے کئی موضوعات پر خاص نمبر شائع کیے۔
 افسر صدیقی امروہوی 9 فروری، 1984ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں.

امیر مینائی کا مختصر تعارف Amir menai A Famous Urdu Poetess ghazal

امیر مینائی 
پیداش: 1828ء
وفات: 1900ء
شاعر ۔ ادیب ، امیر احمد نام مولوی کرم محمد کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ لکھنؤ میں پیداہوئے درسی کتب مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے ۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کیں۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رامپور گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد گئے وہاں کچھ دن قیام کیا تھا۔ کہ بیمار ہوگئے۔ اور وہیں انتقال کیا۔


متعدد کتابوں کے مصنف تھے ۔ ایک دیوان غیرت بہارستان ، 1857ء کے ہنگامے میں ضائع ہوا۔ موجودہ تصانیف میں دو عاشقانہ دیوان مراۃ الغیب ، صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محمد خاتم النبین ہے۔ دو مثنویاں نور تجلی اور ابرکرم ہیں۔ ذکرشاہ انبیا بصورت مسدس مولود شریف ہے۔ صبح ازل آنحضرت کی ولادت اور شام ابد وفات کے بیان میں ہے۔ چھ واسوختوں کاایک مجموعہ بھی ہے۔ نثری تصانیف میں انتخاب یادگار شعرائے رامپور کا تذکرہ ہے، جو نواب کلب علی خان کے ایما پر 1890ء میں لکھا گیا۔ لغات کی تین کتابیں ہیں۔ سرمہ بصیرت ان فارسی عربی الفاظ کی فرہنگ ہے جو اردو میں غلط مستعمل ہیں۔ بہار ہند ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ امیر اللغات ہے اس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ انتقال ہوگیا۔

Hazrat Maulana Mufti Mehmood(ra) Ki Siyasi zindgi

سیاسی زندگی 
امت مسلمہ کے انحطاط کے اس زمانے میں حضرت مفتی صاحب نے جہاں تعلیم وتدریس،تصنیف وتالیف اوروعظ وارشادکی خدمات انجام دیںوہاں آپ نے سیاست کی خارداروادی میں اپنے دامن کوآرائشوں سے بچاتے ہوئے قدم رکھا اورمحرک کرداراداکیا،آپ ابتداء ہی میں جمیعت علماء اسلام سے وابستہ رہے حضرت مولاناعبداللہ درخواستی کی قیادت میں متحدہ جمہوری محاذکے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل رہے ،پاکستان قومی اتحاد P,N,A)اوردیگرتمام اسلامی تحریکوں میں اپنے اکابرکے ساتھ بڑھ چڑھ کرحصہ لیا،مختلف عہدوں پرکام کرتے ہوئے صوبائی جنرل سیکرٹری سے لے کرمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدوں پررہ کرشاندار کردار اداکیا۔
پاکستان میں شریعت بل کی جو تحریک چلی تھی اوربالآخر ""سینٹ""نے اس بل کومنظوربھی کرلیاتھااس تحریک میں مفتی صاحب صف اول کے قائدین میں سے تھے آپ نے شریعت بل کی تحریک کوتیزکرنے اوراس میں روح ڈالنے میں اساسی کردارکیالیکن شومئی قسمت کہ مسلم لیگ حکومت نے اس بل کوسبوتاژ کیا،یادرہے کہ یہ وہ بل تھاجس پرتمام مکاتب فکر کااتفاق ہوچکاتھااس بل کی اہم دفعہ یہ تھی کہ ملک کی تمام عدالتیں تمام فیصلوں میں شریعت کی پابندہوںگی،عام آدمی سے لیکر صدرتک تمام لوگ عدالت کے سامنے جواب دہ ہوںگے،اس بل کے لیے مختلف کانفرنسوں کے انعقاد کاسہرابھی مفتی صاحب کے سرہے۔
١٩٧٤ ء تحریک ختم نبوت میں مفتی صاحب نے مرکزمیں حضرت مولاناسیدمحمدیوسف بنوری اورضلعی سطح پرحضرت مولانامفتی حبیب اللہ کی زیرقیادت بھرپور حصہ لیا اورختم نبوت کی تحریک کوکامیاب کرنے کے لیے انتھک سعی اورجدوجہدکی،مگربالآخر سیاسی جمہوری تنظیموں سے مایوس ہوکرانقلابی تنظیموں کی سرپرستی شروع کی اورجمہوری سیاست کوخیربادکہا۔

چنانچہ ان تمام مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ ہمیشہ سے اہل حق کی جہادی تنظیموں کی عملی سرپرستی فرماتے رہے ہیں ،آپ کاتعلق مجاہدین سے ہمیشہ مربی ومحسن کارہا،١٩٨٨ ء میں علماء کرام کے ایک وفد کے ساتھ باقاعدہ افغانستان کے جہاد اول میں عملی حصہ لیا،جس میں دیگر حضرات کے علاوہ ،مولانازاہدالراشدی صاحب، مولاناعبدالرؤف فاروقی صاحب،مرزاغلام نبی جانباز مرحوم ،ڈاکٹرغلام محمداورمولانایحییٰ نارووال شامل تھے۔
ارشاد المفتیین

Alamat e Qayamat: Halal Ko Haram Samjha Jaye Ga

حرام کو حلال سمجھاجائے گا :
میری امت میں چند قومیں (ایسی پیدا) ہوں گی جو زنا کو اور ریشم پہننے کو اور شراب پینے کو اور باجوں کو حلال سمجھیں گی۔ لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحر وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ۔(بخاری:5590)لَيَكُونَنَّ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ۔(السنن الصغیر:3353)
میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دیں گے ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے اور گانے والی عورتیں گائیں گی اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دیں گے اور ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنا دیں گے۔۔لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ، وَالْمُغَنِّيَاتِ، يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ۔(ابن ماجہ:4020)لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا۔(ابوداؤد:3688)لَيَسْتَحِلَّنَّ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ بِاسْمٍ يُسَمُّونَهَا إِيَّاهُ۔(مسند احمد:22710)
ایک روایت میں آپﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے :قریب ہے کہ میری امّت شرمگاہوں(زنا )اور ریشم کوحلال کرلے گی۔اَوْشك أَنْ تَسْتَحِلَّ أُمَّتِي فُرُوجَ النِّسَاءِ وَالْحَرِيرَ۔(کنز العمّال:13006)
قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، ایسا وقت ضرور آئےگا کہ میری امّت کے کچھ لوگ تکبّرو غرور کی حالت میں اتراتے ہوئے لہو لعب کے ساتھ رات گزاریں گے اورصبح کو بندروں اور خنزیر صورت میں مسخ کردیے جائیں گے (العیاذ باللہ)ایسا اِس لئے ہوگا کیونکہ وہ حرام کو حلال قرار دیتے ہوں گے،گانے والی عورتوں کو رکھتے ہوں گے ، شراب پیتے ، سود کھاتے اور ریشم پہنتے ہوں گے۔وَالَّذِي نَفسِي بِيَدِهِ ليبيتن أنَاس من أمتِي على أشر وبطر وَلعب وَلَهو فيُصْبِحُوا قرَدَةً وَخَنَازِيرَ بِاستِحْلَالِهِمِ الْمَحَارِمَ وَاتِّخَاذِهِمِ الْقَيْنَات وشربِهِم الْخمرَ وبأكْلِهِمِ الرِّبَا ولبْسِهِمِ الْحَرِير۔(الترغیب :2865)
مال میں حلال و حرام کا فرق ختم ہوجائے گا :

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کو آنے والے مال کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ حلا ل ہے یا حرام ۔يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ۔(بخاری :2059)
تاریک فتنے اور قیامت

Homosexuality(ہم جنس پرستی)

ہم جنس پرستی :
مردو ں کا مردوں سے شہوت کا پورا کرنا ”لواطت“ اور عورتوں کا عورتوں سے ”سحاق“ کہلاتا ہے ۔قربِ قیامت میں احادیث کے مطابق اِس امّت میں یہ روگ عام ہوجائے گااور پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہلاکت کا فیصلہ آجائے گا۔
جب میری اُمّت پانچ چیزوں کو حلال سمجھ لے تو اُن کے اوپر ہلاکت آجائے گی :ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگیں ، شرابیں پینے لگیں ، ریشم پہننے لگیں ،گانے والیاں رکھنے لگیں ، (شہوتوں کو پورا کرنے کے لئے )مرد مردوں پر اور عورتیں عورتوں پراکتفاء کرنے لگیں۔إِِذَا اسْتَحَلَّتْ أُمَّتِي خَمْسًا فَعَلَيْهِمُ الدَّمَارُ، إِِذَا ظَهَرَ التَّلَاعُنُ، وَشَرِبُوا الْخُمُورَ، وَلَبِسُوا الْحَرِيرَ، وَاتَّخِذُوا الْقِيَانَ، وَاكْتَفَى الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ۔(شعب الایمان:5086)(تحریم الفروج
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے :دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ عورتیں عورتوں کے ذریعہ اور مرد مردوں کے ذریعہ (شہوتوں سے)مستغنی ہوجائیں گے ،اور ”سحاق“ عورتوں کے مابین زنا ہے ۔لا تذهب الدنيا حتى يستغني النساء بالنساء والرجال بالرجال والسحاق زنا النساء فيما بينهن۔(تاریخ دمشق لابن عساکر :10/119)(کنز العمال :38500)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ مرفوعاً نقل فرماتے ہیں کہ عورتوں کا باہمی سحاق(شہوت پوری کرنا) زنا ہے ۔سِحَاقُ النِّسَاءِ زِنًا بَيْنَهُنَّ۔(شعب الایمان: 5082)نبی کریمﷺکا ارشاد ہے : جب مرد مرد کے پاس اور عورت عورت کے پاس (شہوت پوری کرنے لئے) آئے تو وہ دونوں زانی ہیں ۔إِذَا أَتَى الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَهُمَا زَانِيَانِ، وَإِذَا أَتَتِ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَهُمَا زَانِيَانِ۔(شعب الایمان: 5075)
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے : وہ شخص ملعون ملعون ملعون ہے جو قومِ لوط کا عمل (لواطت) کرے۔ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۔(شعب الایمان:5089) نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :قسم اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، یہ دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگوں میں دھنسنا،صورتوں کا مسخ ہونا اور پتھروں کی بارش کا ہونا پایا جائے گا، لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ !میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا کب ہوگا ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تم عورتوں کو دیکھو کہ وہ زینوں(سواریوں پر )سوار ہورہی ہیں ، گانے والیاں زیادہ ہوگئیں اور جھوٹی گواہی دی جانے لگے ، مسلمان مشرکین کے برتن یعنی سونے چاندی کے برتن میں پینے لگیں ، اور مرد مردوں کے ذریعہ اور عورتیں عورتوں کے ذریعہ (شہوت سے)مستغنی ہوجائیں ، تو بس اُس وقت تیار ہوجاؤ۔وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَا تَنْقَضِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَتَّى يَقَعَ بِهُمُ الْخَسْفُ وَالْمَسْخُ وَالْقَذْفُ، قَالُوا: وَمَتَى ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ النِّسَاءَ قَدْ رَكِبْنَ السُّرُوجَ، وَكَثُرَتِ الْقَيْنَاتُ، وَشُهِدَ شَهَادَاتُ الزُّورِ، وَشَرِبَ الْمُسْلِمُونَ فِي آنِيَةِ أَهْلِ الشِّرْكِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَاسْتَغْنَى الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ فَاسْتَدْفِرُوا وَاسْتَعِدُّوا۔(مستدرکِ حاکم:8349)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ جانوروں کی طرح سے راستوں میں بدکاری کریں گے، مرد مردوں کے ذریعہ اور عورتیں عورتوں کے ذریعہ (شہوتوں سے )مستغنی ہوجائیں گے، اُس کے بعد اُنہوں نے سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہوکہ ”تساحق“ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا: یہ کہ عورت عورت پر سوار ہوجائے اور اُس کے ساتھ ”سحاق “ یعنی شہوت پوری کرے۔لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَسَافَدَ النَّاسُ فِي الطُّرُقِ كَمَا يَتَسَافَدُ الدَّوَابُّ، يَسْتَغْنِي الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ، أَتَدْرُونَ مَا التَّسَاحُقُ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: تَرْكَبُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ تَسْحَقُهَا۔(الفتن لنعیم :1794)

عرش ملسیانی )بل مکند) کا مختصر تعارف ، حالات زندگی Arsh Mlsyany A Famous Urdu Poetess

عرش ملسیانی (بل مکند)


عرش ملسیانی کا حقیقی نام بالمکندتھا۔ ان کی پیدائش۲۰ /ستمبر ۱۹۰۸ء کو قصبہ ملسیان ضلع جالندھر میں ہوئ تھی ۔ ان کے والد جوش ملسیانی بھی اردو کے جانے مانے شاعر تھے۔ یہ دہلی میں گورنمنٹ آف انڈیا کے رسالہ’’آج کل‘‘ کے ادارتی عملےہ میں شاخل ہوگئے تھے۔ ۱۹۵۵ء میں جوش ملیح آبادی کے پاکستان آجانے پر آپ ’’آج کل ‘‘ کے مدیر اعلی بن گئے تھے ۔ ۱۵/دسمبر ۱۹۷۹ء کو دہلی میں انتقال کرگئے تھے ۔ عرش کے دو مجموعات کلام’’ہفت رنگ‘‘ اور ’’چنگ و آہنگ‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔

عبدالحمید عدم کا مختصر تعارف ، حالات زندگی Abdul Hameed Adam A Famous Urdu Poetess poetry, ghazal

 عبدالحمید عدم

عبدالحمید عدم پاکستان کے نامور شاعر ہیں جو رومانی غزلوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
عبد الحمیدعدم 10 اپریل، 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک پاس کیا۔ پھر پرائیوٹ طور پر ایف اے کیا اور ملٹری اکاونٹس میں ملازم ہو گئے۔ 1939ء میں 10 سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے۔ وہاں جا کر عراقی لڑکی سے شادی کر لی۔ 1941ء میں ہندوستان آگئے۔ اور ایس اے ایس کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ پھر ملٹری اکاونٹس میں ملازمت پر بحال ہوگئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا آپ 1948ء میں ملٹری اکاونٹس میں ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر مقرر ہوئے۔ اور اپریل، 1966ء میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یعسوب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ عدم نے اپنی شاعری کا آغاز ان دونوں کیا تھا جب اردو شاعری کے آسمان پر اختر شیرانی ، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری جیسے روشن ستارے جگمگا رہے تھے۔ عدم نے بھی ان کی راہ پر چلتے ہوئے صرف رومانی شاعری کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ اردو زبان کے اس رومانی شاعر نے10 مارچ1981ء میں وفات پائی ۔ اور قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ کے صدر دروازے کے پاس دفن ہوئے۔

جہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے

محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں
کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے

گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لئے گہری
تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے

زمانہ ہنستا ہے ہم بے نوا فقیروں پر
یہ غفلتیں تو مناسب نہیں غریب نواز

وہ زلف ویسے تو آتش ہے اے عدم یکسر
مگر اثر کی رعایت سے ہے نسیم حجاز

اے زیست کی تلخی کے شاکی صرف ایک نصیحت ہے میری
آنکھوں کی شرابیں پیتا جا زلفوں کی پناہیں لیتا جا

اے موسم گل جاتا ہے اگر پھر اتنا تکلف کیامعنی
غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا

ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں
دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں

دنیا کتنی حسین لگتی ہے
آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں

اسی موضوع پر عدم نے مزید طبع آزمائی کی ہے:

یہ سمجھ کے سچ جانا ہم نے تیری باتوں کو
 اتنے خوب صورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے

Tags

8Th October 2005 (1) A Famous Urdu Poetess Saghar Siddiqui (1) A Beautiful Complete list of "Kulyat-e-Saghar" (1) A Beautiful List Of Urdu Poetry By Allama Semab Akbar Abadi (1) Aaj rothay hova sajan ko bohat yad kia (1) Aalam Ki Yorash Main Bhi Khur sand Rahay Hain (1) AASIA MIRZA NOVEL LIST (1) Aasia Razaqi Novels List (1) Aawargi Bar-Rang e Tamasha Buri Nahi (1) Ab Kia Batain Umar e Wafa Kun Kharab Ki (1) Ab Kia Bataun Main Tarey Milney Say Kia Mila (1) Ab Tu Sheharon Sey Khabar Aati Hai Dewanoon (1) Abdul Hameed Adam (1) Abdul Hameed Adam A Famous Urdu Poetess (1) Afghan (1) Afsar Siddiqui Amrohi (1) Afsar Siddiqui Amrohi A Famous Urdu Poetess (1) Agar Cha Hum Ja Rahain Hain Mahfal Say Nala e Dil Fugar Ban k (1) Ahmad nadeem qasmi (78) Ahmad nadeem qasmi a Famous Urdu Poetess (2) Ahmed Fawad (1) Ahmed Fawad A Famous Urdu Poetess (1) Aik Darkahwast (1) Aik Naghma Aik Ghucha Aik Tara Aik Jaam (1) Aik Nazam (2) Aik Nazriya Ka Noha (1) Aik Wada Hai Kisi Ka Jo Wafa Hota Nahi (1) Ajaz Siddiqui (1) Ajaz Siddiqui A Famous Urdu Poetess (1) Akhtar Ansari akbrabadi (1) Akhtar Ansari akbrabadi A Famous Urdu Poetess (1) Aktr ulayman (1) Aktr ulayman A Famous Urdu Poetess (1) Alama semab akbar abadi (2) Alama semab akbar abadi A Famous Urdu Poetess (2) Alamat e Qayamat (1) Ali Sardar Jafri (1) Ali Sardar Jafri a Famous Urdu Poetess (1) Allama Muhammad Iqbal A Famous Urdu Poetess (1) Allama Semab Akbar Abadi (33) Amir menai (1) Amir menai A Famous Urdu Poetess (1) Andaleeb shadani (1) Andaleeb shadani A Famous Urdu Poetess (1) Andaz Hou Bahu Tari Awaz e Pa Ka Tha (1) Anjamanain Ujar Gayi Uth Gaye Ihal-e Anjman (1) ANP (1) Ap Hi Apna Tamasha Hun (1) Apney Mahool Sey Bhi Qais Key Rishrey Kia Kia (1) Arsh Mlsyany (1) Arsh Mlsyany A Famous Urdu Poetess (1) Ashak e Rawaa Nahi Hain Muhabbat K Phool Hain (1) Ay Dil e Beqarar Chup Ho Ja (1) Ay Husan Lala Fam Zara Aankh Tu Mila (1) Aysi Tajalliyan Hain Kahan Aftab Main (1) Azadiyoon K Nam Pa Ruswaiyan Mileen (1) Ban Gaye Ashak Jafa Ki Tasveer (1) Baqader e Shauq Iqrar e Wafa Kia? (1) Bari Manoos Ley Main Aik Naghma Sun Raha Hun (1) Bari Manoos Ly Mai Aik Naghma Sun Raha Hun (1) Barish (17) Beautiful Hilal-e-Eid Poetries (1) BEAUTIFUL POETRY LIST " by Ahmad Nadeem Qasmi (1) Beautiful Urdu Poetries By Allama Semab Akbar Abadi (2) Beautiful Urdu Poetry by Ahmad Nadeem Qasmi (76) Beautiful Urdu Poetry By Allama Semab Akbar Abadi (31) Beautiful Urdu Poetry By Saghar Siddiqui (20) beautifull urdu poetry by parveen shakir (4) Bhala Kia Parh Lia Hai Hathoon KI Lakeeroon Main (1) Bhanwar Aanay Ko Hai Ay Ahale Ahle Kashti Na Khuda Chun Lain (1) Bharam Ghazal Ka Jis Tarha Ram Key Sath Raha (1) bhla Kisi Ka Sitaroon Pa Kia Ijaro Chaley (1) Bigar Key Mujh Sey Woh Marey Liye Udas Bhi Hai (1) Bigra Jo Naqsh e Zeest Bana Shahkar e Zeest (1) Bolney Do (1) Books (1) But Kisi Ka Khuda Nahi Hota (1) Buzurgoon Ki Duain Mil Rahi Hain (1) Chamak Jugnoo Ki Baraq e Be-Amaan Maloom Hoti Hai (1) Chand (1) Complete List of Imran Sereis Novels by Mazhar Kaleem (1) Dasht e wafa sey (1) Depression (1) Dr. Ahmad Nadim Rafi (1) Dua (1) Ek Muhabbat Key Ewaz Araz o Sama Dey Dunga (1) Fareeb-e-Nazar (1) Fasley Key Maine Ka Kun Fareeb Khatey Ho (1) Fikr (1) Gahraiyaan (1) Ghafwaan e Shabaab (1) Ghazals (114) Ghum Mujhey Hasrat Mujhey Wahshat Mujhey Sawda Mujhey (1) Gilgit Baltistan (1) Goonj (1) Halal o Haram (1) Haram Aur Deer K Katbey Woh Daikhey Jisey Fursatt Hai (1) Harjai (1) Hazrat Maulana Mufti Mehmood (1) Hazrat Maulana Mufti Mehmood Ki Siyasi zindgi (1) History (1) Homosexuality (1) Hujoom e Fikr o Nazar Sey Damagh Jaltey Hain (1) Hum Andheron Sey Bach Kar Chaltey Hain (1) Hum Apney Quwat e Takhleeq Ko Uksaney Aye Hain (1) Hum Gilgit Baltistan K Hain (1) Hum Siyasat Sey Muhabbat Ka Chalan Mangtey Hain (1) Humain Tu Yun Bhi Na Jalway Taray Nazar Aaye (1) Iftkhar bukhari (1) Ihtyatan Faqar Ka Har Marhala Kat'ta Raha (1) Imran Sereis Novels by Mazhar Kaleem (1) Imran Series (1) Insan (1) Is Darja Ishq Mojab e Ruswai Ban Gaya (1) Ishq Ya Hawas (1) Janey Ya Muhabbat Kia Shey Hai Tarpa Bhi Gai Tapka Bhi Gai (1) Jannat Jo Mile lake Maikhaane Main Rakh Dena (1) JI (1) Jo Tha Bartawo Dunya Ka Wahi Us Nay Kia Mujh Say (1) Jo Zooq e Ishq Dunya Main Na Himmat Aazma Hota (1) Jog (1) Jub Tara Hukam Mila Tark e Muhabbat Kardi (1) JUI (1) K Jatay Ho Khafa Ho Kar (1) Khamoshi Bhi Naz say khali nahi (1) Kharab Hoti Na Yun Khak e Shama o Parwana (1) Khawab (1) Khuda Say Hashar-e-Main Kafir Tari Faryad Kia Kartey (1) Khush Raho (1) kia hoti hai Muhabbat (1) Kia Janay Mai Jana Hai (1) Kis ko Qatil Main Kahoon Kis ko Maseeha Samjhoon (1) Kisy Maloom Tha Us Shay Ki Tujh Mai Bhi Kami Hogi (1) Kitney Khursheed Bayak Nikal Aatey Hain (1) Kon Kahta Hai K Moot Aai Tu Mar jaunga (1) Kub Sey Gosh Bar Awaz Hun Pukaro Bhi (1) Kuch Hath Utha Kay Mang Na Hath Utha k Daikh (1) Lafzoon k Paristar Khabar Hi Tujhey Kia Hai (1) Latedad (1) Lekin Ya Sun Rakho (1) Maa Jee Ap Nay Dil Saaf Karna Kis Say Sikha (1) Main Dewana Hun Marey Pas Mahshar Main Khara Rahna (1) Main Dostoon Sey Thaka Dushmanoon Main Ja Betha (1) Major Political Parties in Pakistan (1) Majrooh (1) Manajaat (1) Manfiyat Ka Manshoor (1) Mare Sher (1) Maron Tu Main Kisi Chahrey MAi Rang Bhar Jaunga (1) Masoom Insaan Key Lashey Pa Fatah Key Parcham Lahraye (1) Masturbation and treatment of it (1) Mazameen (5) Mian Supurd e Faramoshi Hun Tu Mahw e Khudi (1) Mohsain naqvi (1) MQM (1) Mujh Say Milney K Woh Karta Tha Bahaney Kitney (1) Mujhay Fikar o Sir e Wafa Hai Hunooz (1) Naat-e-Pak (1) Naats (1) Nama Gaya Koi Na Koi Nama Bar Gaya (1) Nina adil (1) No Umeedi Ki Dhund Main Ghaltiyaan jugnu Ahsasat Key Hain (1) Novel Books (3) Novels (3) Novels By Aasia Mirza (1) Pabandi (1) Pakistan (1) Paristar e Muhabbat Ki Muhabbat Hi Shariat Hai (1) Parties (1) Parveen shakir (5) Pas Mulaqat Rahay (1) PAT (1) Pathan (1) Patjhar Ki Tanhai (1) Phool Chahiya They Magar Hath Main Aaye Pathar (1) Player's (1) PML(N) (1) Poems (16) Poetry (148) Poetry Yun Utha Karti Hai Sawan Ki Gatha (1) poets (15) PPP (1) PSP (1) PTI (1) Qitaat (1) Rahain Gay Chal K Kaheen Aur Agar Yahan Na Rahay (1) Rahey Ga Mubtala e Kashmakash Insan Yahaan Kub Tak (1) Rasam-o-Riwaj (1) Ravi Ki Lahroon Pa Rawaan Hain Qashain Chan Sitaroon Ki (1) Ret Sey But Na Bana Ay Marey Achey Fankar (1) Rim Jhim (1) Roz Aik Naya Soraj Hai Tari Ataoon Main (1) Saans Lena Bhi Saza Lagta Hai (1) Sabaq Aamooz (1) Saghar Siddiqui (21) Sarwat Hussain (1) Sauod Usmani (1) Shab-e-Ghum Ay Mare Allah Basar Bhi Hogi (1) Shabnam Kay Charagh (1) Shadi (1) Shadi Kis Umar Main Honi Chahiye (1) Shahid Khan Afridi (1) Shayad Jagah Naseeb Ho Us Gul K Har Main (1) Shola-e-Gul Sey (1) Short Urdu Stories (1) Sir Dr. Muhammad Iqbal (2) Songs (1) Soni Soni Galiyan Hain Ujri Ujri Chopalain (1) Sports (1) stories (1) Tahreerain (2) Tare Qadmoon Pa Sar Hoga QaJa Sar Par Khari Hogi (1) Tari Guftar Main Tu Piyar Key Tevar Kum They (1) Tasweer Zahan Main Nahi Tarey Jaal Ki (1) Toot jatey Hain Sub Aaina MArey (1) Tu Jo Badla Tu Zamana Hi Badal Jaey Ga (1) Tum Maray Pas Raho (1) Tuor Sey Koi Alaqa Hai Na Rabat Sey (1) Uchal jam K Taskher E Kainat Karian (1) Urdu Famous Novels By Aasia Razaqi (1) Urdu Novels (2) Urdu Poetry By Sir Dr. Muhammad Iqbal (1) URDU PROVERBS (1) Usama Ameer (1) Usay Apnay Kal Hi ki Fikr Thi Wo Jo Mera Waqif-e-Hal Tha (1) videos (1) Waqat (1) Who Is Shahid Khan Afridi (1) Woh aik Umar Sey Masroof e Ibadaat Main They (1) Woh Koi Aur Na Tha Chand Khushak e Pattey They (1) Ya Raat (1) Yad-e-mazi (1) Yakis Raja Ka Ewan Hai Malbey Key Anbaroon Main (1) Zaban Bandi Say Khush Ho (1) Zina (2)

Translate